Posts

چند قدم تاریخ میں۔۔۔

آئیں، کچھ ہسٹری کے اوراق پلٹ کر دیکھیں۔ 1991 میں جب نوازشریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنا اور پنجاب میں غلام حیدروائیں کی حکومت ہوا کرتی تھی، اس وقت عاصمہ جہانگیر اور پیپلزلائرزفورم کے پاس ہائیکورٹ بار کا کنٹرول ہوا کرتا تھا۔ نوازشریف کو یہ بات سخت ناپسند تھی، چنانچہ اس نے 1991 میں ملک نعیم، چوہدری امیر حسین اور عبدالستار لالیکا کے ذریعے بھاری رقم خرچ کر اپنے ایک قریبی دوست کو لاہور ہائیکورٹ بار کا سیکرٹری جنرل بنوا دیا۔ 1997 میں نوازشریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنا اور بیوروکریسی میں جو سب سے پہلی تقرری کی، وہ سیکرٹری قانون کی تھی۔ یہ سیکرٹری قانون وہی تھا جسے 1991 میں لاہور ہائیکورٹ بار کا سیکرٹری جنرل بھی بنوایا گیا تھا۔ یاد رہے، 1997 میں نوازشریف نے سپریم کورٹ کے ساتھ تاریخی محاذآرائی کرتے ہوئے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ پر حملہ بھی کروایا تھا۔  1997 میں جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ نوازشریف نے محاذ آرائی شروع کی تو اسے تمام قانونی مشوروں کی کمک پہنچانے والا  وفاقی سیکرٹری قانون ہی ہوا کرتا تھا۔ پھر دسمبر 1997 میں نوازشریف نے چیف جسٹس کو غیرآئینی اور غیرق

🍃🍃 فضائل پان 🍃🍃

🍃🍃 فضائل پان 🍃🍃 پان وہ واحد روحانی غذا ہے جو اللہ کی پیدا کردہ قدرتی حالت میں کھائی جاتی ہے ۔ پان وہ دولت ہے جس کی محبت بالخصوص اللہ والوں کے دلوں میں فطرتاً ڈال دی گئی ہے پان ہی وہ عظیم شے ہے جس کو کھانے سے انسان کے اندر ناقابل بیان چستی وپھرتی آجاتی ہے پان ہی وہ واحد نعمت ہے  جو ہرے جنّتی رنگ کی ہوتی ہے اور انسانی منہ میں جاکر گہرے سرخ رنگ میں تبدیل ہوکر اپنی رنگا رنگی کی دلکش مثال پیش کرتی ہے پان ہی وہ آزاد غذا ہے جسے کھانے کے لیے آپ کو باقاعدہ دستر خوان اور بیٹھنے کی قطعا حاجت نہیں جسے آپ راستوں میں میدانوں میں بازاروں میں بس اڈوں پر ایرپورٹ پر باغات میں جنگلات میں نیز مسجد میں(فتاوی محمودیہ) گھر میں بلا تکلف کھاسکتے ہیں پان ہی وہ لاجواب ولا ثانی غذا ہے جسے آپ چلتے پھرتے دوڑتے بھاگتے لیٹے بیٹھے سوتے جاگتے ہر حالت میں بآسانی کھاسکتے ہیں پان کی فضیلت کے لیے یہ بات بہت کافی ہے کہ علامہ کشمیری جیسی شخصیت پان کی دلدادہ تھی پان کی یہ کرامت پوری کائنات کےمشاہدے میں ہیکہ کسی بھی مضمون یا کتاب کو سمجھنے یا مشکل مسئلے کو حل کرنے یا پیچیدہ موضوع سلجھانے کے لیے پان سے زیادہ مؤثر معجون آج ت

COOVID 19 PROTOCOL (The Homoeopathy way)

COOVID 19 PROTOCOL Precautionary  1. Tuberculinum 1m - Take one dose of 3 drops in a tablespoon water and do not repeat.  2. Streptococcinum 200 - three drops in a tablespoon water on throat irritation one dose per week 3. Arsenicum Alb 30 - three drops in a tablespoon water on throat irritation - three doses per day morning, afternoon & evening  If COVID 19 tested positive: 1. Tuberculinum 1m - Take one dose of 3 drops in tablespoon water and to be repeated based on condition subject to my approval.  2. Streptococcinum 200 - three drops in a tablespoon water on throat irritation one dose per day 3. Arsenicum Alb 30 - three drops in a tablespoon water on throat irritation - three doses per day morning, afternoon & evening  4. Drosera 200 - one dose for severe cough of three drops.  Not to be repeated.  All homeopathic medicines doses are 3 drops in a tablespoon water.  Medicine must be taken in clean mouth free of taste and flavor. 15 minutes before and after do not eat, drink

نقطۂ نظر

نقطۂ نظر ایک بچے نے سمندر میں اپنا جوتا کھو دیا تو بلکتے ہوئے بچے نے سمندر کے ساحل پر لکھ دیا........  یہ سمندر چور ہے.....!  کچھ ہی فاصلے پر ایک شکاری نے سمندر میں جال پھینکا اور بہت سی مچھلیوں کا شکار کیا تو خوشی کے عالم میں اس نے ساحل پر لکھ دیا.......  سخاوت کیلئے اسی سمندر کی مثال دی جاتی ہے.....!   ایک غوطہ خور نے سمندر میں غوطہ لگایا اور وہ اس کا آخری غوطہ ثابت ہوا کنارے پر بیٹھی غمزدہ ماں نے ریت پر ٹپکتے آنسوں سے لکھ دیا....... یہ سمندر قاتل ہے........!   ایک بوڑھے شخص کو سمندر نے قیمتی موتی کا تحفہ دیا تو اس نے خوشی سے لکھ دیا........  یہ سمندر بڑا کریم اور سخی ہے........! پھر ایک بہت بڑی لہر آئی اور اسنے سب لکھا ہوا مٹا دیا  لوگوں کی باتوں پر کان مت دھرو ہر شخص وہ کہتا ہے جہاں سے وہ دیکھتا ہے  خطاؤں اور غلطيوں کو مٹا دو تاکہ دوستی اور بھائی چارگی چلتی رہے

جنت البقیع

Image
جنت البقیع۔۔۔۔  آغا شورش کاشمیری، مسلک دیوبند کے نقیب، پاکستان کے مشہور اہل قلم اور نامور صحافی تھے۔اُنہوں نے شاہ فیصل کے دور میں سعودی عرب میں 14دن گزارے اور اُن تاثرات کو اپنی مشہور کتاب “شب جائے کہ من بودم” میں تحریر کیا ہے۔ جنت البقیع کے حوالے سے شورش کاشمیری لکھتے ہیں کئی لوگ باہر زائروں کے انتظار میں رہتے اور معاوضہ طے کئے بغیر انعام کی توقع پر ساتھ ہو جاتے ہیں وہ ڈھیریوں کی نشاندہی کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کون سی قبر کس وجود مبارک کی ہے ؟ ۔۔۔ جنت البقیع جو خاندان رسالت کے دو تہائی افراد کا مدفن شروع اسلام کے درخشندہ چہروں کی آخری آرام گاہ اور ان گنت شہدائے اسلام صلحائے امت اور اکابر دین کے سفر آخرت کی منزل ہے، ایک ایسی اہانت کا شکار ہے کہ دیکھتے ہی خون کھول اٹھتا ہے دامن یزداں چاک کرنے کا حوصلہ نہیں، کلاہ سلطانی تک رسائی نہیں، اپنا گریبان چاک کرنےسے فائدہ نہیں ۔۔۔۔ انہیں ذرہ برابر احساس نہیں کہ اس مٹی میں کون سو رہے ہیں، رسول مقبول کے لخت پارے ہیں، انکی نور نظر اور نور نظر کے چشم و چراغ ہیں ۔۔۔۔ عرب ہیں کہ قبریں ڈھائے اور محل بنائے جا رہے ہیں مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی ،بید

پرانے دن

کبھی بارش جو ھوتی تھی تو اپنی ٹین کی چھت پر کئی سُر تال بجتے تھے، بڑے کمرے کے بیچوں بیچ ہم برتن بھی رکھتے تھے، کے ان سوراخوں سے جن سے صبح سورج چمکتا تھا کبھی بارش جو ہوتی تھی تو پانی بھی ٹپکتا تھا، نئے ہمسائے کی بیٹی ھمارے گھر میں آتی تھی ھماری بہنوں کے سنگ بیسنی روٹی پکاتی تھی، مزا بارش کا جو پرانے گھر میں آتا تھا ابھی تک یاد آتا ھے، اگرچہ لُو بھی چلتی تھی فضا بھی گرم ھوتی تھی اور ایسابھی ھوتا تھا کہ مانو دم نکل جائے، تو ایسے میں ھم اپنے دوست کو سَتُّـو پلاتےتھے اگر ھوں جیب میں پیسے تو پھر قلفی بھی کھاتے تھے، کبھی ایسا بھی ھوتا تھا کہ دسترخوان بچھتا تھا، تو دسترخوان کے کونے پہ رکھی بالٹی میں آم ھوتے تھے، کبھی اک دو کبھی دوچار اپنے نام ھوتے تھے، غریبی میں جو جینے کا مزا تھا ابھی تک یاد آتا ھے، اور خزاں آتی تھی تو موسم کا عجب ھی ڈھنگ ھوتا تھا، ھرے پـتوں کا خوف سے پھر پیلا رنگ ھوتا تھا، جدا ھو جائیں گے وہ یارو شاخ سے کسی بھی دن، کے روندے جائیں گے پیروں تلے کسی بھی دن انہی سوکھے ھوئے پتــوں میں پھر اک پھول بھی کھلتا تھا انہی سو

کنکریاں

کنکریاں  عامر حسینی  بیٹا!یہ جدہ ہے یہاں سے ہم احرام باندھیں گے اور پھر اپنے مقدس ترین سفر کا آغاز کردیں گے-میرے بابا کی آواز میرے کان میں پڑی تو میں چونک گیا-اس سے قبل جدہ کی دور سے نطر آتی بلند و بالا عمارتین دیکھ کر مجھ پر ایک عجب طرج کی ہیبت طاری تھی-میں سوچ رہا تھا کہ یہ تو وہ حجاز نہیں ہے جس کا تذکرہ فلپ کے ہیٹی نے اپنی کتاب "دی عرب"میں کیا تھا-اور جب میں عربی ادب میں ڈاکٹریٹ کررہا تھا تھا تو اس دوران عربوں کی متداول کتب میں جس حجاز کا نقشہ کھینچا گیا تھا یہ وہ بھی نہیں تھا- مجھے اب تک یہ بھی سمجھ نہیں آیا تھا کہ میرے بابا نے بحری سفر کیوں اختیار کیا تھا؟مین نے اچانک بابا سے پوچھا کہ بابا جانی! ہم ہوائی سفر اختیار کرتے تو بہت آرام سے پہنچتے -تو بابا جو کہ سفید براق احرام میں لپٹے ہوئے تھے مجھے کہنے لگے بیٹا!تمہارے دادا بھی سفینہ عابد سے حج کرنے آئے تھے-میں نے کہا بابا مجھے تھوڑا تھوڑا تو یار ہے- دادا اور دادی کے حج پر جانے کا واقعہ-بابا نہ جانے کس خیال میں تھے-اچانک ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ جب تمہارے دادا اور دادی نے اچانک حج پن جانے کا اعلان کیا تھا